ریاستی ادارے دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے سنجیدہ نہیں، فضل الرحمٰن
جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ ریاستی ادارے اپنی ناکامی کی ذمہ داری عوام پر نہ ڈالیں، ریاستی ادارے دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے سنجیدہ نہیں۔
چارسدہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ چار دہائیوں سے دہشتگردی کے واقعات ریاستی اداروں کا منہ چڑا رہے ہیں، چار گھنٹوں میں بھارت کو لپیٹنے والی ہماری ریاست اتنی کمزور نہیں ۔
انہوں نے کہا کہ سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ 4 دہائیوں سے جاری دہشتگردی پرقابو کیوں نہیں پایا جاتا، ریاستی ادارے دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے سنجیدہ نہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ریاستی ادارے عوام پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام لگا رہے ہیں ، عوام نے سوات سے لے کر وزیرستان تک چند گھنٹوں میں علاقے خالی کیے، آج بھی وہ لوگ اپنے ہی ملک میں مہاجر ہیں۔
سربراہ جے یو آئی (ف) کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی ادارے ایک بار پھر عوام کو علاقے خالی کرنے کا کہہ رہے ہیں، ریاستی ادارے اپنی ناکامی کی ذمہ داری عوام پر نہ ڈالیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ادارے ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر عوام پر رعب ڈال رہے ہیں، ان کا لہجہ رعب داب والا ہوتا ہے، ادارے اپنے گریباں میں جھانک کر اپنا امتحان لیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ امن و امان اور شہریوں کی جان ومال کی ذمہ داری ریاست کی ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہےکہ شہریوں کی حفاظت کریں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے مدارس بل کے حوالے سے کہا کہ مدارس بل پر حکومتی اتحاد کی بدنیتی ظاہر ہو چکی ہے، صدر مملکت نے مدارس آرڈیننس ایکٹ پر دستخط کیے، مدارس آرڈیننس کو توسیع دی جا رہی ہے مگر قانون سازی نہیں ہو رہی۔
انہوں نے کہا کہ مدارس ترمیمی بل کے حوالے سے حکومت کے عزائم ٹھیک نہیں، مدارس ترمیم بل کے حوالے سے فیصلہ وفاق المدارس اور تنظیمات مدارس کریں گے۔
مولانا فضل الرحمٰن کا پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حوالے سے کہنا تھا کہ میں پی ٹی آئی کےساتھ اختلاف ختم نہیں کررہا لیکن تعلقات کو بہتر بنانا میرےمقاصد میں سے ہے، میں پی ٹی آئی سے اختلاف کو اختلاف تک رکھ کر تلخیوں کو دور کرنا چاہتاہوں۔
افغانستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ کابل سے تعلقات بہتر بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے، ہم افغانستان کے خلاف پہلے کارروائی اور بعد میں بات چیت شروع کرتے ہیں، افغانستان کے خلاف کارروائی سے تلخیاں پیدا ہوتی ہیں اور مذاکرات کا ماحول ختم ہوجاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میثاق جمہوریت پر ہم ایک بار ہاں کر چکے ہیں، جے یو آئی (ف) آج بھی میثاق جمہوریت پر قائم ہے، اگرسیاست دان میثاق جمہوریت پر عمل کریں تو ایک بہتر ماحول پیدا ہو سکتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کا جواب ان سے پوچھ لیں، غیر معقول سوال کا جواب میں کیوں دوں؟
سربراہ جے یو آئی (ف ) نے کہا کہ میں نے خیبر پختونخوا میں عدم اعتماد کی بات پی ٹی آئی کے خلاف نہیں کی، میں نے مشورہ دیا ہے کہ صوبے میں تبدیلی کی ضرورت ہے، میں نے پی ٹی آئی کے اندر تبدیلی لانے کی بات کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات خیبر پختونخوا سیاسی کشمکش کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہے اور عدالت نے تسلیم بھی کیا ہے، ساری دنیا پی ٹی آئی کی حکومت مان رہی ہے ،اس میں ہم کچھ نہیں کر سکتے، مگر میں آج بھی کہتا ہوں کہ اس صوبے کی اکثریت جعلی ہے۔