سوات: مدرسے کے اساتذہ کے ’تشدد‘ سے طالبعلم کی موت، گرفتار 11 ملزمان کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
سوات میں تشدد سے مدرسے کے طالبعلم کی مو ت کے کیس میں گرفتار 11 اساتذہ کو عدالت نے دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا، مرکزی ملزم تاحال گرفتار نہیں کیا جاسکا۔
سوات کے علاقے خوازہ خیلہ میں ایک مدرسے میں مبینہ تشدد کے باعث طالب علم کی موت کے کیس میں گرفتار ہونے والے 11 اساتذہ کو جوڈیشل مجسٹریٹ خوازہ خیلہ کی عدالت میں پیش کیا گیا، عدالت نے ملزمان کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔
کیس کے مرکزی ملزم، مدرسے کے مہتمم اور ایک اور اہم شخص کو تاحال گرفتار نہیں کیا جا سکا۔
ڈی پی او سوات عمر خان نے ڈان کو بتایا کہ پولیس نے خصوصی ٹیمیں تشکیل دے دی ہیں اور باقی ملزمان کی گرفتاری کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ ہمارے پاس مرکزی ملزمان تک پہنچنے کے لیے اہم شواہد موجود ہیں اور ہم جلد ان تک پہنچ جائیں گے۔’
واضح رہے کہ پیر کو سوات کی تحصیل خوازہ خیلہ کے گاؤں چلیار میں افسوس ناک واقعہ پیش آیا تھا ، جس نے پوری وادی کو ہلا کر رکھ دیا تھا، پیر کی شام مدرسے کا کم عمر طالب علم فرحان، مبینہ طور پر اپنے اساتذہ کے ہاتھوں شدید جسمانی تشدد کا نشانہ بننے کے بعد جان کی بازی ہار گیا تھا۔
پولیس اور عینی شاہدین کے مطابق 3 اساتذہ محمد عمر، ان کے بیٹے احسان اللہ، اور ایک اور شخص عبداللہ نے مبینہ طور پر اسے دوسرے طلبہ کے سامنے مارنا شروع کیا، یہ مارپیٹ غیر حاضری کی سزا کے طور پر شروع ہوئی، اور جلد ہی بے رحمانہ تشدد میں تبدیل ہوگئی۔
طلبہ اور اساتذہ نے فرحان کو قریبی ہسپتال پہنچایا، مگر ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دے دیا تھا۔
اس دلخراش واقعے کے بعد مدرسے کو سیل کرکے وہاں موجود 300 طلبہ کو ان کے والدین کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
ڈی پی او سوات محمد عمر کے مطابق علاقے میں یہ مدرسہ غیر قانونی طور پر چلایا جارہا تھا جسے سیل کردیا گیا ہے، مدرسے کے 300 طلبہ کو پولیس نے اپنی تحویل میں لے کر والدین کے حوالے کردیا ہے۔