ٹرمپ نے روس کے قریب ایٹمی آبدوزوں کی تعیناتی کا حکم جاری کردیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ انہوں نے سابق روسی صدر دمتری میدویدیف کی دھمکیوں کے ردعمل میں دو نیوکلیئر آبدوزیں (سب میرینز) روس کے قریب علاقوں میں تعینات کرنے کا حکم دیا ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ ٹروتھ سوشل’ پر لکھا کہ’ میں نے دو ایٹمی آبدوزیں مناسب علاقوں میں تعینات کرنے کا حکم دیا ہے، بس احتیاطاً، صرف اس لیے کہ یہ بیوقوفانہ اور اشتعال انگیز بیانات صرف بیانات نہ ہوئے تو۔’ انہوں نے مزید کہا کہ’ الفاظ بہت اہم ہوتے ہیں، اور یہ اکثر غیر ارادی نتائج پیدا کر سکتے ہیں، میں امید کرتا ہوں کہ یہ اُن میں سے ایک موقع نہیں ہوگا۔’ ٹرمپ نے واضح نہیں کیا کہ ان کا مطلب نیوکلیئر پاورڈ (ایٹمی توانائی سے چلنے والی) سب میرینز تھا یا نیوکلیئر آرمڈ (جوہری ہتھیاروں سے لیس) آبدوز۔ انہوں نے ان مقامات کا بھی ذکر نہیں کیا جہاں ان آبدوزوں کو تعینات کیا گیا ہے، کیونکہ امریکی فوج ایسے مقامات کو خفیہ رکھتی ہے۔ دنیا کے زیادہ تر جوہری ہتھیار امریکا اور روس کے پاس ہیں، امریکا اپنی نیوکلیئر ’ ٹرائی ایڈ’ (زمین، سمندر، اور ہوا سے لانچ کیے جانے والے ہتھیاروں کی حکمتِ عملی) کے ایک حصے کے طور پر ایٹمی آبدوزوں کو مسلسل گشت پر رکھتا ہے۔ ٹرمپ اور میدویدیف ، جو روسی سلامتی کونسل کے نائب چیئرمین ہیں، نے حالیہ دنوں میں ایک دوسرے پر طنز کے تیر برسائے ہیں۔ منگل کو ٹرمپ نے روس کو ’ آج سے 10 دن کے اندر’ یوکرین میں جنگ بندی پر راضی ہونے کی ڈیڈ لائن دی تھی، ورنہ روس اور اس کے تیل خریدنے والے ممالک پر محصولات عائد کیے جائیں گے۔ ماسکو، جو یوکرین کے ساتھ امن کے لیے اپنی شرائط پیش کر چکا ہے، نے اس ڈیڈ لائن پر کوئی عمل درآمد ظاہر نہیں کیا۔ پیر کو میدویدیف نے ٹرمپ پر ’ الٹی میٹمز کا کھیل’ کھیلنے کا الزام لگایا اور یاد دلایا کہ روس کے پاس سوویت دور کی جوہری صلاحیتیں موجود ہیں جنہیں آخری صورت میں استعمال کیا جا سکتا ہے، خاص طور پر جب ٹرمپ نے اُنہیں ’سوچ سمجھ کر بات کرنے‘ کی تنبیہ کی۔ امریکی سینیٹر لنزے گراہم کی جانب سے امریکا کی سنجیدگی کے اعادے پر، میدویدیف نے جواب دیا کہ’ یہ آپ یا ٹرمپ کے اختیار میں نہیں کہ وہ یہ طے کریں کہ امن مذاکرات کب ہوں، مذاکرات اُس وقت ختم ہوں گے جب ہماری فوجی کارروائی کے تمام مقاصد حاصل ہو جائیں گے۔’ انہوں نے مزید طنزیہ انداز کہا کہ’ پہلے امریکا کی فکر کرو’ میدویدیف کریملن کے ان چند رہنماؤں میں شامل ہیں جنہوں نے 2022 میں یوکرین پر حملے کے بعد سے مغرب کے خلاف سخت ترین بیانات دیے ہیں، ناقدین انہیں غیر ذمے دار قرار دیتے ہیں، لیکن کچھ مغربی سفارتکار ان کے بیانات کو روسی پالیسی ساز حلقوں کی سوچ کا عکاس سمجھتے ہیں۔ ادھر، روسی صدر ولادیمیر پوتن نے آج کہا کہ ماسکو یوکرین کے ساتھ مزید امن مذاکرات کی امید رکھتا ہے، تاہم جنگ کی رفتار اس کے حق میں ہے، یہ بیان اس بات کا اشارہ ہے کہ واشنگٹن کی جانب سے مقرر کردہ پابندیوں کی ڈیڈ لائن کے باوجود روس نے اپنے مؤقف میں کوئی نرمی نہیں دکھائی۔ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ اگر روس نے 8 اگست تک جنگ ختم نہ کی تو وہ ماسکو اور اس کی توانائی خریدنے والے ممالک، جن میں چین اور بھارت سرِفہرست ہیں، پر نئی پابندیاں عائد کریں گے۔ ٹرمپ نے پوتن پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’ فضول باتیں’ قرار دیا اور روس کے تازہ حملوں کو ’ قابلِ نفرت’ قرار دیا۔ پوتن نے، ٹرمپ کی ڈیڈ لائن کا ذکر کیے بغیر۔ کہا کہ یوکرین کے ساتھ تین مذاکراتی نشستوں سے کچھ مثبت نتائج سامنے آئے ہیں اور روس مذاکرات کے تسلسل کی توقع رکھتا ہے۔ پوتن نے کہا کہ’ جہاں تک کسی کی مایوسی کا تعلق ہے، تو ہر مایوسی کی جڑ بے جا توقعات میں ہوتی ہے، یہ ایک معروف اصول ہے۔’ انہوں نے مزید کہا’ لیکن مسئلے کے پرامن حل کے لیے، ضروری ہے کہ تفصیلی بات چیت کی جائے، اور یہ عوامی سطح پر نہیں بلکہ سکون اور سنجیدگی کے ساتھ مذاکراتی عمل میں ہو۔’ پوتن نے دعویٰ کیا کہ روسی افواج یوکرین کی پوری فرنٹ لائن پر حملہ کر رہی ہیں اور جنگ کا پانسہ ان کے حق میں ہے، روس کی وزارت دفاع نے جمعرات کو دعویٰ کیا کہ ان کی افواج نے 16 ماہ کی لڑائی کے بعد یوکرین کے قصبے ’ چاسیو یار’ پر قبضہ کر لیا ہے، تاہم یوکرین نے اس دعوے کو مسترد کر دیا ہے۔ کیف کئی ماہ سے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر رہا ہے، جبکہ روس کہتا ہے کہ وہ صرف ایک مکمل اور پائیدار حل چاہتا ہے، عارضی وقفہ نہیں۔ یوکرینی حکومت کا کہنا ہے کہ روسی مذاکرات کاروں کو بڑے فیصلے کرنے کا اختیار حاصل نہیں، اور صدر ولادیمیر زیلنسکی نے براہ راست مذاکرات کے لیے پوتن کو دعوت دی ہے۔ زیلنسکی نے ایک بار پھر ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر کہا کہ’ ہم جانتے ہیں کہ روس میں فیصلے کون کرتا ہے اور اس جنگ کو کون ختم کر سکتا ہے، پوری دنیا یہ جانتی ہے۔’ انہوں نے کہا کہ ’ امریکا نے مذاکرات کی تجویز دی، یوکرین نے اس کی حمایت کی، اب صرف روس کی آمادگی درکار ہے۔’