اداکارہ حمیرا اصغر کی موت حادثاتی یا طبعی تھی، پولیس رپورٹ

پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اب تک کے شواہد کے مطابق ماڈل و اداکارہ حمیرا اصغر کی موت حادثاتی یا قدرتی وجوہات کی بنا پر ہوئی۔ ڈپٹی انسپکٹر جنرل ( ڈی آئی جی) ضلع جنوبی سید اسد رضا کی رپورٹ، جس کی ایک کاپی ڈان نیوز کو موصول ہوئی ہے، میں کہا گیا ہے کہ ’ اب تک کے شواہد میں کسی سازش یا خودکشی کا کوئی نشان نہیں ملا، حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ موت گھریلو کام کاج کے دوران کسی ممکنہ حادثے یا قدرتی وجہ سے ہوئی۔’ خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے پولیس نے حمیرا اصغر کی موت کی تفتیش کے لیے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی تھی، ان کی لاش 8 جولائی کو کراچی کے ایک اپارٹمنٹ سے ملی تھی۔ پولیس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اپارٹمنٹ کا دروازہ ڈبل لاک تھا اور اندر تمام چابیاں موجود تھیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی تیسرے شخص کی مداخلت کا امکان نہیں، ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق جسم پر کسی تشدد، جدوجہد یا ہتھیار کے نشانات نہیں ملے۔ رپورٹ کے مطابق موت کی اصل وجہ کا حتمی تعین زہریلے مواد (ٹاکسی کولوجی)، کیمیائی تجزیے اور فرانزک رپورٹس کے بعد ہی ہوسکے گا۔ واضح رہے کہ حمیرا اصغر کے پڑوسیوں نے دسمبر 2024 میں اپارٹمنٹ سے بدبو آنے کی شکایت کی تھی، جنوری میں مالک مکان اور بلڈنگ اسٹاف نے اپارٹمنٹ کا دورہ کیا لیکن کچھ خاص پتا نہیں چل سکا تھا، رپورٹ میں کہا گیا کہ بالکونی کا دروازہ اور کھڑکی کھلی ہوئی تھی جس سے بدبو باہر نکلتی رہی۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ کسی نے اس کے بعد معاملے کو زیادہ نہیں اٹھایا کیونکہ یہ سمجھا گیا کہ حمیرا اصغر شہر سے باہر ہیں، حمیرا اکثر طویل غیر حاضری کی عادی تھیں اور مالک مکان نے پہلے ہی ان کے خلاف بے دخلی کا مقدمہ دائر کر رکھا تھا اس لیے ذاتی طور پر رابطہ کرنے سے گریز کیا۔ پولیس کی جانب سے حمیرا اصغر کے ذاتی آلات اور موبائل فونز کے ڈیجیٹل و فرانزک تجزیے کے مطابق آخری بار ان کی ریکارڈ شدہ سرگرمی 7 اکتوبر 2024 کو ہوئی، جب انہوں نے 14 افراد سے رابطہ کیا۔ رپورٹ کے مطابق ’ آخری معلوم رابطہ شام 5 بجے کے قریب ہوا جس سے قوی امکان ہے کہ ان کی موت اسی دن 7 اکتوبر کو ہوئی۔’ پولیس نے اپارٹمنٹ بلڈنگ میں نگرانی کے فقدان کا بھی ذکر کیا، کیونکہ وہاں اندر یا باہر کوئی سی سی ٹی وی کیمرہ نصب نہیں تھا اور نہ ہی لفٹ آپریٹر یا سیکیورٹی گارڈ موجود تھا۔ حمیرا اصغر کو گزشتہ جمعہ کو لاہور کے ماڈل ٹاؤن کیو بلاک قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا تھا جس میں چند ہی افراد شریک ہوئے تھے۔ پولیس سرجن سمعیہ سید کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں تصدیق کی گئی تھی کہ لاش شدید حد تک گل چکی تھی اور کم از کم آٹھ ماہ پرانی تھی، اور لاش کے گل سڑجانے کی وجہ سے موت کی وجہ کا تعین نہیں کیا جا سکا۔ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کے نوٹیفکیشن میں ہدایت دی گئی تھی کہ حمیرا اصغر کی موت کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے مکمل تفتیش کی جائے، چاہے وہ قدرتی ہو، حادثاتی، خودکشی ہو یا قتل، اور اس سلسلے میں تمام دستیاب وسائل استعمال کر کے ایس ایس پی کے دفتر کو روزانہ پیش رفت رپورٹ دی جائے۔ اداکارہ حمیرا اصغر نہ صرف تھیٹر، فلم اور ٹی وی آرٹسٹ تھیں بلکہ بصری فنون کی ماہر بھی تھیں، انہوں نے پنجاب یونیورسٹی کے فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ سے بیچلرز آف فائن آرٹس (پینٹنگ) مکمل کی تھی، یونیورسٹی کے دنوں میں ان کا تھیٹر گروپس سے تعلق رہا، جس میں ڈاکٹر احمد بلال کی سربراہی میں بننے والے ناٹک گروپ بھی شامل ہے۔ انہیں امجد اسلام امجد، قوی خان اور دیگر سینئر اداکاروں سے بھی ملاقات کا موقع ملا جو یونیورسٹی میں لیکچرز کے لیے آتے تھے۔ اپنے فنی کیریئر کے آغاز میں انہوں نے چار یا پانچ پاکستان ٹیلی ویژن ڈرامے کیے، اس کے علاوہ انہوں نے ان دنوں سماجی مسائل پر مبنی تھیٹر میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔