ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر سے ہزاروں افغانوں کی امریکا منتقلی معطل

واشنگٹن: سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک ایگزیکٹو آرڈر نے ہزاروں افغان شہریوں کے لیے امریکا میں پناہ لینے کا دروازہ بند کر دیا ہے۔ یہ وہ افغان شہری ہیں جنہوں نے امریکی افواج کی افغانستان میں موجودگی کے دوران ان کی معاونت کی اور اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر ان کے ساتھ کام کیا۔

امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، 2001 سے 2021 تک جاری رہنے والی افغان جنگ کے دوران ہزاروں افغانوں نے امریکی فوج کی حمایت کی۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد انہیں محفوظ طریقے سے امریکا میں پناہ دینے اور آباد کرنے کی منظوری دی گئی تھی، لیکن صدر ٹرمپ کے ایک حالیہ ایگزیکٹو آرڈر نے ان کے امریکا آنے کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔

ایک افغان سابق فوجی افسر، جنہوں نے امریکی حکام کے ساتھ کام کیا تھا، کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی افغانستان میں چھپ کر زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ امریکا منتقلی کے تمام مراحل مکمل ہوچکے تھے، سوائے حتمی میڈیکل ٹیسٹ کے، مگر ٹرمپ کے نئے فیصلے کے بعد ان کے لیے امریکا کا دروازہ بند ہوگیا۔

اس افغان افسر نے کہا، ’’صدر ٹرمپ نے نہ صرف افغان اتحادیوں کے مفادات کو نظرانداز کیا بلکہ امریکی قومی مفادات کو بھی پس پشت ڈال دیا۔ اس فیصلے سے دنیا اور امریکی اتحادیوں کو یہ پیغام ملتا ہے کہ امریکا پر بھروسہ کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔‘‘

افغان مہاجرین کی آبادکاری میں مدد دینے والے امریکی گروپ ’افغان اویک‘ (Afghan Evac) کے صدر شان وان ڈیور نے اس ایگزیکٹو آرڈر کو امریکی حکومت اور فوج کے لیے کام کرنے والے افغانوں کے ساتھ ’غداری‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا، ’’یہ فیصلہ دل دہلا دینے والا ہے اور اس کے بعد ہر کوئی سکتہ میں ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ افغان اتحادیوں کے تحفظ میں ناکامی عالمی سطح پر ایک خطرناک پیغام دے رہی ہے کہ امریکی وعدے غیر یقینی اور وقتی ہوتے ہیں۔

نیو یارک ٹائمز کے مطابق، صدر ٹرمپ کے اس فیصلے سے تقریباً 40 ہزار افغان متاثر ہوئے، جن کی امریکا منتقلی کی تیاریاں جاری تھیں۔ خاص طور پر 10 سے 15 ہزار افغان ایسے تھے جو تمام سیکیورٹی کلیئرنس مکمل کر چکے تھے اور صرف پروازوں کے منتظر تھے۔

اعداد و شمار کے مطابق، صدر جو بائیڈن کے دورِ حکومت میں سب سے زیادہ، یعنی ایک لاکھ افغانوں کو امریکا میں پناہ دی گئی۔ اس سے قبل صدر باراک اوباما کے دور میں تقریباً 85 ہزار افغانوں کو امریکا منتقل کیا گیا تھا، جبکہ صدر ٹرمپ کی پہلی مدت (2016-2020) کے دوران محض 11 ہزار افغانوں کو امریکا آنے کی اجازت دی گئی تھی۔