سروائکل کینسر ویکسین اور بیمار معاشرتی رویے

جی ایم ایڈوکیٹ

راقم کوئی ڈاکٹر تو نہیں مگر ایک Sociologist ہونے کی حیثیت سے معاشرے میں انسانوں کے رویوں، اجتماعی شعور، ان کی خدوخال اور سماجی ساخت کے اتار چڑھاؤ کو سمجھنا میرا موضوعِ دلچسپی اور پیشہ ورانہ مشغلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب معاشرے میں کسی نئے رویے، نئی سوچ یا سائنسی ایجاد کو لے کر مخالفت اور پروپیگنڈا جنم لیتا ہے تو میں اسے صرف ایک طبی یا سائنسی بحث نہیں بلکہ ایک گہرا سماجی مظہر سمجھتا ہوں۔ اسی تناظر میں اس اہم اور حساس موضوع پر چند معروضات پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ آخر ہمارے معاشرے میں نئی ویکسین یا نئی ٹیکنالوجی کے خلاف افواہیں اور خدشات کیوں پنپتے ہیں اور اجتماعی رویے کیسے ان افواہوں کے زیرِ اثر بدلتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں 9 سال سے 15 سال تک کی بچیوں میں بچہ دانی پر کینسر سے بچاو کیلئے HPV Vaccine لگانے کی مہم قومی سطح پر پاکستان کے چار صوبوں میں شروع کی گئی ہے جبکہ AJK اور گلگت بلتستان میں اگلے سال سے شروع کیا جائے گا. زرا دیکھتے ہیں HPV ہے کیا، ایچ پی وی (HPV) ویکسین دراصل Human Papilloma Virus سے بچاؤ کے لیے تیار کی گئی ایک اہم سائنسی ایجاد ہے جو عورتوں میں ہونے والے مہلک سروائیکل کینسر سے مؤثر تحفظ فراہم کرتی ہے۔ یہ ویکسین سب سے پہلے ترقی یافتہ دنیا میں متعارف ہوئی جہاں بڑے پیمانے پر تحقیق، اسکریننگ اور ویکسینیشن کے نتیجے میں اس مرض کی شرح تیزی سے کم ہوئی۔ یہاں تک کہ آسٹریلیا جیسے ممالک 2030 تک سروائیکل کینسر کو مکمل طور پر قابو میں لانے کے قریب ہیں۔ اس ویکسین کی سب سے بڑی ضرورت اس لیے ہے کہ HPV وائرس دنیا بھر میں لاکھوں خواتین کو متاثر کرتا ہے اور بروقت بچاؤ کے بغیر یہ مرض نہ صرف جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے بلکہ خاندان اور معاشرے پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ ویکسین مدافعتی نظام کو مضبوط کرتی ہے، وائرس کو غیر فعال بناتی ہے اور مستقبل کی نسلوں کو صحت مند زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ یہ سوال ہمیشہ سے معاشرتی و سماجی مفکرین کے مطالعے میں زیربحث رہا ہے کہ نئی ٹیکنالوجی یا سائنسی ایجادات کو قبول کرنے میں معاشرے کیوں ہچکچاتے ہیں، انکار کرتے ہیں اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہی چیزوں کو اپناتے ہیں۔ Émile Durkheim نے "اجتماعی ضمیر” (Collective Conscience) کے نظریے میں وضاحت کی کہ معاشرتی رویے فرد کے ذاتی فیصلوں سے زیادہ ایک اجتماعی سوچ کے تحت تشکیل پاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب معاشرے میں کوئی نیا تصور آتا ہے تو اس کے بارے میں پہلے شکوک پیدا ہوتے ہیں کیونکہ یہ اجتماعی ضمیر سے متصادم محسوس ہوتا ہے۔ بعد میں جب ادارے، رہنما اور سائنسی حقائق مسلسل آگاہی فراہم کرتے ہیں تو آہستہ آہستہ وہ اجتماعی ضمیر اس نئے نظریے یا ایجاد کو قبول کرنے لگتا ہے اور آہستہ آہستہ معاشرے کا نیا Mind Set وجود میں آتا ہے. Karl Marx اور Max Webe جیسے مفکرین نے بھی وضاحت کی کہ سماجی ڈھانچے اور طاقت کے مراکز عوامی سوچ پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ جب طاقتور گروہ یا Elites کسی چیز کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں تو عام عوام زیادہ جلدی اس کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس سائنسی علم کم اور روزمرہ کی زندگی میں بھروسہ کرنے کے لیے صرف مقامی کہانیاں یا مذہبی تشریحات زیادہ ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کسی مقامی زبان میں بنی ہوئی ویڈیو، کسی خاتون یا مرد کی پراثر گفتگو، یا کسی مذہبی حوالے کو فوراً درست مان لیتے ہیں، چاہے وہ سراسر افواہ ہی کیوں نہ ہو۔ پاکستان اور دیگر ترقی پذیر معاشروں میں یہ رجحان زیادہ نمایاں ہے کہ جب بھی کوئی نئی ویکسین یا ٹیکنالوجی آتی ہے تو اس کے خلاف عجیب و غریب کہانیاں پھیلائی جاتی ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ یہ ویکسین بانجھ پن کا سبب بنے گی، کبھی یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ اس سے مردانہ طاقت چھین لی جائے گی، کبھی دماغ میں چپ ڈالنے کی سازش کی باتیں کی جاتی ہیں۔ یہ سب دراصل Sociological Phobia’s کی ایک شکل ہیں جو کمزور ادارہ جاتی ڈھانچے، کم تعلیم یافتہ آبادی اور اعتماد کے فقدان سے جنم لیتی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں کچھ طاقتور ممالک نے تیسری دنیا کے معاشروں کو نقصان پہنچانے کے لیے سائنسی یا طبی میدان میں تجربات کیے، اس تاریخی پس منظر نے بھی عوامی شعور میں بداعتمادی کو جنم دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مغربی دنیا سے کوئی نئی ویکسین آتی ہے تو لوگ فوراً اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ دوسری طرف ترقی یافتہ دنیا میں تعلیم، تحقیق، اداروں کی شفافیت اور میڈیا کی ذمہ داری نے عوام کو یہ سکھایا ہے کہ سائنسی تحقیق پر اعتماد کیا جا سکتا ہے، لہٰذا وہاں اس طرح کے پروپیگنڈے زیادہ دیر پنپ نہیں پاتے۔ پاکستان میں حالیہ دنوں ایچ پی وی یعنی ہیومن پیپیلوما وائرس کے خلاف ویکسینیشن مہم شروع ہو چکی ہے۔ یہ ویکسین خاص طور پر 9 سے 14 سال کی بچیوں کے لیے تجویز کی گئی ہے تاکہ مستقبل میں وہ سروائیکل کینسر سے محفوظ رہ سکیں۔ سروائیکل کینسر عورتوں کی بچہ دانی کے منہ پر پیدا ہونے والی ایک مہلک بیماری ہے جو براہِ راست عورت کی صحت اور زچگی کے نظام کو متاثر کرتی ہے۔ دنیا بھر میں اس بیماری کا سب سے زیادہ بوجھ افریقہ میں ہے جبکہ آسٹریلیا 2030 تک اس بیماری کو ختم کرنے کے قریب ہے کیونکہ وہاں ویکسینیشن تقریباً مکمل ہو چکی ہے اور اسکریننگ کے بہترین نظام قائم ہیں۔ بدقسمتی سے اس ویکسین کے خلاف بھی پاکستان میں وہی پرانا پروپیگنڈہ شروع ہو گیا ہے جو کبھی پولیو کے خلاف اور پھر کورونا ویکسین کے خلاف ہوا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پولیو ویکسین نے لاکھوں بچوں کو معذوری سے بچایا اور کورونا ویکسین نے دنیا بھر میں کروڑوں زندگیاں محفوظ بنائیں۔ ایچ پی وی ویکسین بھی اسی اصول پر کام کرتی ہے کہ یہ جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط بناتی ہے اور وائرس کو غیر فعال کر دیتی ہے تاکہ وہ کینسر کا سبب نہ بن سکے۔ حال ہی میں مختلف میڈیا گروپس میں کچھ آڈیو کلپس گردش کرتی رہیں جنہوں نے عوامی ذہن میں مزید شکوک پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ایک کلپ میں ایک خاتون اپنی سہیلی کو بڑی رازدارانہ انداز میں یہ بتا رہی تھی کہ ویکسین لگانے والی ٹیمیں ان کے محلے کی طرف آ رہی ہیں، لہٰذا وہ تمام خواتین کو منع کر دے کہ یہ ویکسین نہ لگائیں کیونکہ اس سے عورتوں میں بانجھ پن پیدا ہو جاتا ہے، اور بقول اس کے یہ بات خود ہیلتھ ورکرز نے بتائی ہے۔ اسی طرح ایک اور کلپ استوری شینا زبان میں منظرِ عام پر آیا جس میں ایک شخص نے اسی نوعیت کی بے بنیاد اور غیرسنجیدہ باتیں پھیلائیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس طرح کے کلپس کی سب سے بڑی طاقت ان کی "مقامی زبان” اور "اندر کی خبر” جیسا تاثر ہوتا ہے، جس کے باعث سادہ لوح عوام اسے سچ سمجھ بیٹھتے ہیں اور یوں ایک جھوٹی افواہ تیزی سے اجتماعی رویے کا حصہ بن جاتی ہے۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ عوام کو آگاہی دی جائے، ان کے خدشات کو سنا جائے اور سائنسی دلائل کے ساتھ انہیں جواب دیا جائے۔ مقامی زبانوں میں، مقامی کمیونٹی لیڈرز اور دینی رہنماؤں کے ذریعے اگر یہ پیغام عام کیا جائے کہ یہ ویکسین زندگی بچاتی ہے اور خواتین کو ایک مہلک بیماری سے محفوظ کرتی ہے تو پروپیگنڈے کی شدت کم ہو سکتی ہے۔ عوامی رویے بدلنے کے لیے صرف حکم دینا کافی نہیں بلکہ اعتماد پیدا کرنا ضروری ہے۔ آخر میں یہ سمجھنا ہوگا کہ پروپیگنڈہ کوئی خارجی سازش ہی نہیں بلکہ ایک داخلی کمزوری بھی ہے جو علم، تعلیم اور اعتماد کی کمی سے جنم لیتی ہے۔ جب تک معاشرے میں اجتماعی شعور اس سطح پر نہیں پہنچتا کہ وہ افواہ اور حقیقت میں فرق کر سکے، تب تک یہ منفی رویے بار بار سامنے آتے رہیں گے۔ لہٰذا پاکستان جیسے معاشروں میں ایچ پی وی ویکسین یا کسی بھی نئی ٹیکنالوجی کو قبول کروانے کے لیے سماجی سطح پر آگاہی، تعلیمی اصلاحات اور اداروں پر اعتماد قائم کرنا بنیادی ہتھیار ہیں۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے ہم اپنے معاشرتی رویوں کو مثبت بنا سکتے ہیں اور اپنی نئی نسل کو صحت مند مستقبل دے سکتے ہیں۔