بجٹ میں کٹوتی، ناسا کے تقریبا 4 ہزار ملازمین مستعفی

امریکی خلائی ادارے نیشنل ایروناٹکس اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن (ناسا) کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے وفاقی اداروں میں بھاری کٹوتیوں کے فیصلے کے تحت اپنے تقریباً 3 ہزار 870 ملازمین سے محروم ہونا پڑے گا۔ خبر رساں ادارے ’ایجنسی پریس فرانس‘ (اے ایف پی) کے مطابق ناسا کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق ’ڈفرڈ ریزائنیشن پروگرام‘ کے دوسرے مرحلے میں تقریباً 3,000 ملازمین نے رضاکارانہ علیحدگی اختیار کرنے کی حامی بھرلی جب کہ اس سے قبل پہلے مرحلے میں 870 ملازمین مستعفی ہونے کی حامی بھر چکے تھے۔ مذکورہ ملازمین کی جانب سے مستعفی ہونے کی حامی بھرنے کے علاوہ اگر ادارے سے دوسرے ملازمین کی مدت ملازمت پوری کو بھی مدِنظر رکھا جائے تو ادارے کے مستقل ملازمین کی تعداد 18,000 سے گھٹ کر تقریباً 14,000 رہ جائے گی، یعنی ادارے کے ملازمین میں 20 فیصد سے زائد کی کمی ہوگی۔ پہلے ہی ناسا اس وقت ایک عبوری ایڈمنسٹریٹر کے تحت کام کر رہا ہے کیونکہ ٹرمپ کے نامزد کردہ سابق امیدوار ٹیکنالوجی ارب پتی جیرڈ آئزک مین جنہیں ایلون مسک کی حمایت حاصل تھی کو صدر ٹرمپ نے بعد ازاں خود ہی مسترد کر دیا تھا۔ ’ڈفرڈ ریزائنیشن پروگرام‘ ملازمین کو قبل از وقت استعفیٰ کا موقع فراہم کرتا ہے جس کے تحت وہ متعین مدت تک انتظامی چھٹی پر رہتے ہیں اور پھر طے شدہ تاریخ پر باضابطہ طور پر ادارے سے علیحدہ ہو جاتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے رواں برس پیش کردہ ناسا بجٹ میں سائنسی اور ماحولیاتی پروگراموں میں واضح کٹوتی کی گئی تھی جب کہ چاند پر واپسی اور مریخ پر انسانی مشن کو مرکزی حیثیت دی گئی۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ امریکا اس وقت چین کو چاند پر پہنچنے سے پہلے پیچھے دھکیلنے اور مریخ پر پہلا انسان بھیجنے کے ہدف پر کام کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ چین نے 2030 تک اپنا پہلا انسانی چاند مشن مکمل کرنے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے ۔