ٹرمپ، نیتن یاہو کا فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے کے منصوبے میں پیش رفت کا اشارہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو کی میزبانی کرتے ہوئے غزہ کے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کے متنازع منصوبے میں پیش رفت کا اشارہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں اطراف کے تمام ممالک سے شاندار تعاون ملا ہے، ہر ایک نے تعاون کیا ہے لہٰذا کچھ اچھا ہونے والا ہے، ٹرمپ نے مناسب وقت پر ایران پر سے پابندیاں اٹھانے عندیہ بھی دے دیا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق وائٹ ہاؤس میں امریکی اور اسرائیلی حکام کے درمیان عشائیے کی ابتدا میں بینجمن نیتن یاہو نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکا اور اسرائیل دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں جو فلسطینیوں کو بہتر مستقبل دینا چاہتے ہیں، ان کا اشارہ اس امکان کی طرف تھا کہ غزہ کے رہائشیوں کو ہمسایہ ممالک میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔
نیتن یاہو نے کہا کہ ’اگر لوگ یہاں رہنا چاہتے ہیں تو رہ سکتے ہیں، لیکن اگر وہ جانا چاہیں تو انہیں جانے کی اجازت ہونی چاہیے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم امریکا کے ساتھ قریبی تعاون کر رہے ہیں تاکہ ایسے ممالک تلاش کیے جا سکیں جو فلسطینیوں کو بہتر مستقبل دینے کی بات ہمیشہ کرتے رہے ہیں، میرا خیال ہے کہ ہم کئی ایسے ممالک کے قریب پہنچ چکے ہیں‘۔
ابتدائی طور پر ٹرمپ نے نیتن یاہو کے ان بیانات پر خاموشی اختیار کی، لیکن بعد میں کہا کہ اردگرد کے ممالک تعاون کر رہے ہیں۔
ٹرمپ نے کہاکہ ’ہمیں اطراف کے تمام ممالک سے شاندار تعاون ملا ہے، ہر ایک نے تعاون کیا ہے لہٰذا کچھ اچھا ہونے والا ہے‘۔
اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو نے پیر کے روز کہا کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ امن چاہتے ہیں، مگر کسی بھی ممکنہ آزاد فلسطینی ریاست کو اسرائیل کی تباہی کے لیے ایک پلیٹ فارم قرار دیا، اور اسی وجہ سے اُن کے مطابق سیکیورٹی کے تمام اختیارات اسرائیل کے پاس ہی رہنے چاہییں۔
ٹرمپ نے فلسطین کے دو ریاستی حل کا سوال نظرانداز کردیا
جب صحافیوں نے صدر ٹرمپ سے فلسطین کے دو ریاستی حل کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ ’مجھے نہیں معلوم‘، اور یہ سوال نیتن یاہو کی طرف موڑ دیا۔
نیتن یاہو نے کہاکہ’میرا خیال ہے کہ فلسطینیوں کو اپنی حکمرانی کے تمام اختیارات حاصل ہونے چاہییں، لیکن ایسے کوئی اختیارات نہیں ہونے چاہییں جن سے وہ ہمیں خطرے میں ڈال سکیں، اس کا مطلب ہے کہ مکمل خودمختاری، جیسا کہ مجموعی سیکیورٹی کا اختیار، ہمیشہ ہمارے ہاتھ میں رہے گا’۔
انہوں نے مزید کہاکہ ”7 اکتوبر کے بعد لوگوں نے کہا کہ فلسطینیوں کے پاس تو غزہ میں ایک ریاست تھی (حماس کی ریاست)، اور دیکھیں انہوں نے اس کے ساتھ کیا کیا، انہوں نے اسے تعمیر نہیں کیا، بلکہ زمین کے نیچے پناہ گاہیں، دہشت گرد سرنگیں بنائیں اور پھر ہمارے لوگوں کو قتل کیا، ہماری خواتین کی بے حرمتی کی، ہمارے مردوں کے سر قلم کیے، ہمارے شہروں، قصبوں، اور کیبوتس پر حملہ کیا۔ یہ ایسے ہولناک مظالم تھے جو دوسری عالمی جنگ اور نازیوں کے زمانے کے بعد دوبارہ دیکھنے میں نہیں آئے۔ اس لیے لوگ اب یہ نہیں کہیں گے کہ ’چلو انہیں ایک اور ریاست دے دیتے ہیں‘، کیونکہ وہ ایک اور ریاست اسرائیل کو تباہ کرنے کے لیے استعمال ہوگی“۔
نیتن یاہو نے کہا کہ ’ہم ان فلسطینی ہمسایوں کے ساتھ امن قائم کریں گے جو ہمیں تباہ نہیں کرنا چاہتے، اور ایسا امن قائم کریں گے جس میں ہماری سلامتی یعنی خودمختار سیکیورٹی اختیار، ہمیشہ ہمارے پاس ہی رہے گا‘۔
انہوں نے مزید کہاکہ ’اب لوگ کہیں گے کہ یہ مکمل ریاست نہیں، یا یہ ریاست ہی نہیں، یا یہ کچھ اور ہے، ہمیں پروا نہیں، ہم نے قسم کھائی ہے، کبھی دوبارہ نہیں اور وہ وقت اب ہے، یہ دوبارہ نہیں ہونے دیں گے‘۔
یاد رہے کہ اس سال کے اوائل میں ٹرمپ نے تجویز پیش کی تھی کہ فلسطینیوں کو بےدخل کر کے غزہ پٹی کو ’مشرقِ وسطیٰ کی ریویرا‘ میں تبدیل کیا جائے۔
غزہ کے شہریوں نے اس منصوبے کو سختی سے مسترد کر دیا تھا اور اپنے گھروں سے نکلنے سے انکار کیا تھا، جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس منصوبے کو ’نسل کشی‘ قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی تھی۔
ٹرمپ اور نیتن یاہو کے درمیان واشنگٹن میں کئی گھنٹوں پر مشتمل ملاقات ہوئی، جبکہ اسرائیلی حکام حماس کے ساتھ امریکا کی ثالثی میں جاری بالواسطہ مذاکرات میں مصروف رہے، جن کا مقصد جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ حاصل کرنا ہے۔
یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی جب ٹرمپ نے قبل ازیں پیش گوئی کی تھی کہ اس ہفتے کوئی معاہدہ ہو سکتا ہے، نیتن یاہو نے قطر روانگی سے پہلے کہا تھا کہ ان کی ٹرمپ سے گفتگو قطر میں جاری مذاکرات کو آگے بڑھانے میں مدد دے سکتی ہے۔
یہ جنوری میں صدارت سنبھالنے کے بعد ٹرمپ کی نیتن یاہو سے تیسری بالمشافہ ملاقات تھی، ملاقات دو ہفتے بعد ہوئی جب ٹرمپ نے ایران کے جوہری مقامات پر بمباری کا حکم دیا تھا تاکہ اسرائیلی فضائی حملوں کو سپورٹ کیا جا سکے، جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان 12 روزہ جنگ کا اختتام ایک جنگ بندی معاہدے پر ہوا۔
ایران سے بات چیت کا شیڈول بنالیا، ٹرمپ
ٹرمپ نے کہا کہ ان کی انتظامیہ ایران سے ملاقات کرنے جا رہی ہے، انہوں نے کہاکہ ’ہم نے ایران سے بات چیت کا شیڈول بنایا ہے، اور وہ بات کرنا چاہتے ہیں، انہیں شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے‘۔
ٹرمپ کے مشیر برائے مشرق وسطیٰ، اسٹیو وٹکوف نے کہا کہ یہ ملاقات آئندہ ایک ہفتے میں متوقع ہے۔
ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ وہ کسی مناسب وقت پر ایران پر عائد پابندیاں ختم کرنا چاہیں گے، ان کا کہنا تھا کہ ’میں چاہوں گا کہ کسی مناسب وقت پر یہ پابندیاں ہٹا سکوں‘۔
ایرانی صدر مسعود پژشکیان نے پیر کو شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ ایران امریکا سے اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کر سکتا ہے۔
امریکی صدر نے ایک بار پھر پاکستان اور بھارت سمیت دنیا میں کئی جنگیں روکنے کا ذکر کیا، ان کا کہنا تھا کہ امید ہے کہ اسرائیل ایران جنگ ختم ہوگئی ہے، ایران پر ایک اور حملے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
ٹرمپ نے روایتی طور پر اوول آفس میں رسمی ملاقات کے بجائے نیتن یاہو کے اعزاز میں وائٹ ہاؤس کے بلیو روم میں ایک نجی عشائیہ دیا، امریکی صدر عام طور پر اوول آفس میں غیر ملکی رہنماؤں کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
اس دوران وائٹ ہاؤس کے باہر سیکڑوں مظاہرین جمع تھے، جنہوں نے فلسطینی کفیہ پہنے ہوئے تھے اور فلسطینی پرچم اٹھا رکھے تھے، ان کے بینرز پر مطالبات درج تھے کہ ’اسرائیل کو ہتھیار دینا بند کرو‘ اور ’نسل کشی نامنظور‘، مظاہرین نے نیتن یاہو کی گرفتاری کا مطالبہ بھی کیا، اور غزہ میں مبینہ جنگی جرائم کے سلسلے میں ان کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت کے وارنٹ گرفتاری کا حوالہ دیا۔
نیتن یاہو نے پیر کو اسٹیو وٹکوف اور وزیرِ خارجہ مارکو روبیو سے بھی ملاقات کی، وہ آج امریکی کانگریس کے رہنماؤں سے ملاقات کے لیے کیپیٹل ہل کا دورہ کرنے والے ہیں۔
ملاقات کے دوران نیتن یاہو نے ٹرمپ کو وہ خط بھی پیش کیا جو انہوں نے نوبیل امن انعام کے لیے نامزدگی کے طور پر کمیٹی کو بھیجا تھا۔ ٹرمپ اس پر خوش دکھائی دیے اور نیتن یاہو کا شکریہ ادا کیا۔