غیر ملکی فنڈز کا غلط استعمال کرنے والی این جی اوز پاکستان کی پالیسیوں اور معیشت کے لیے خطرہ
پاکستان میں کام کرنے والی این جی اوز غیر ملکی فنڈز کے غلط استعمال میں ملوث پائی گئیں جس پر سی ٹی ایف کے (کیمپین فار ٹوبیکو فری کڈز) اور وی ایس (وائٹل اسٹریٹجیز) پر پابندی اس بات کو اجاگر کرتی ہے کہ کس طرح بغیر کسی نگرانی کے بیرونی فنڈنگ قومی پالیسیوں پر اثر انداز ہو سکتی ہے اور ملک کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ تنظیمیں، تمباکو کنٹرول کے بہانے، ڈونر فنڈز کا غلط استعمال کرتے ہوئے پالیسی سازوں کو غلط قوانین اپنانے پر اکسا رہی تھیں جو پاکستان کی معیشت کو سنگین نقصان پہنچا سکتے تھے، جبکہ عوامی صحت کے خطرات میں بھی اضافہ کر سکتے تھے۔
حکومت کا ان این جی اوز پر پابندی عائد کرنا ایک درست قدم ہے، لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ سخت نگرانی، شفافیت اور جواب دہی کے بغیر، ایسی تنظیموں کی غیر متوازن کارروائیاں پاکستان کی خودمختاری کو نقصان پہنچاتی رہیں گی اور بین الاقوامی امداد کے نظام پر اعتماد کو نقصان پہنچائیں گی۔ امریکی انتظامیہ کی جانب سے یو ایس ایڈ کے فنڈز کی شفافیت پر تشویش اس کی ایک مثال ہے جو پاکستان میں این جی اوز کی سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے جامع اصلاحات کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔
سیو دی چلڈرن، ایک عالمی این جی او، کو 2015 میں پاکستان میں کام کرنے سے عارضی طور پر پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا، جب اس پر غیر ملکی انٹیلی جنس سرگرمیوں سے روابط کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ اگرچہ بعد میں پابندی ہٹا لی گئی، لیکن غیر ملکی امداد کو ان کے بیان کردہ مشن سے ہٹ کر استعمال کرنے کے حوالے سے خدشات اب بھی برقرار ہیں۔ حالیہ دنوں میں، وزارت داخلہ (ایم او آئی) نے کیمپین فار ٹوبیکو فری کڈز (سی ٹی ایف کے) اور وائٹل اسٹریٹجیز کے خلاف تحقیقات شروع کی ہیں، دونوں کو بلومبرگ فلاحی ادارے کی جانب سے فنڈنگ فراہم کی جاتی ہے۔ یہ تنظیمیں پاکستان میں بغیر درست رجسٹریشن کے کام کرتی رہیں، اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ مقامی اداروں کو فنڈز فراہم کر رہی ہیں بغیر کسی ضروری تحقیقات کے۔
ناقدین کے مطبق تمباکو کنٹرول کے بہانے، ان تنظیموں نے غیر قانونی سگریٹ کی تجارت میں بے پناہ اضافہ کیا ہے، جس کے نتیجے میں تقریباً 300 ارب پاکستانی روپے کا ٹیکس ریونیو کا نقصان ہوا ہے، جیسا کہ انسٹی ٹیوٹ فار پبلک اوپینین ریسرچ (آئی پی او آر) کی تحقیقات میں سامنے آیا ہے۔ پاکستان میں بیچنے والے 54 فیصد سگریٹ برانڈز غیر قانونی ہیں، اور یہ تنظیمیں اس مسئلے کو تسلیم یا حل کرنے میں ناکام رہی ہیں، جو ان کے حقیقی مقاصد کے بارے میں سوالات اٹھاتا ہے۔
مستحکم پاکستان کے ترجمان فواد خاننے اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ”یہ بہت تشویش کا باعث ہے کہ وہ ادارے جو عوامی صحت کے لیے کام کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، پاکستان میں سگریٹ کی غیر قانونی تجارت پر خاموش ہیں۔ یہ INGOs غیر قانونی تجارت کو حل کرنے کو ترجیح نہیں دے رہے حالانکہ عوامی صحت کے بارے میں ان این جی اوز کا بیان کردہ مشن یہی ہونا چاہیے۔
غیر ملکی امداد کے غلط استعمال کا مسئلہ عالمی سطح پر تشویش کا باعث بنا رہا ہے، جس میں مالی وسائل کی غلط تقسیم، خرد برد، اور حتیٰ کہ قومی مفادات کے خلاف سرگرمیوں کی غیر مستقیم حمایت کی اطلاعات شامل ہیں۔ ایسے خدشات کے جواب میں، ٹرمپ نے یو ایس ایڈ کی بڑی مالی امداد کو منجمد کر دیا، جس کے نتیجے میں پاکستان میں 39 منصوبوں کو معطل کر دیا گیا، جن کی مالیت 845 ملین ڈالر سے زیادہ تھی۔ یہ منصوبے توانائی، اقتصادی ترقی، تعلیم اور انسانی امداد جیسے اہم شعبوں میں چل رہے تھے اور ان کی معطلی غیر ملکی امداد کے اخراجات کی افادیت اور شفافیت پر نظرثانی کرنے کے لیے کی گئی تھی۔
ایسی قیاس آرائیاں ہیں کہ تقریباً 17 ارب ڈالر کی یو ایس ایڈ کی امداد کا غلط استعمال کیا گیا تھا، اور کچھ رپورٹس میں مالی بدانتظامی کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔ اگرچہ یہ دعوے غیر تصدیق شدہ ہیں، لیکن ان نے بین الاقوامی فنڈنگ کی نگرانی میں مزید سختی کے مطالبات کو ہوا دی ہے۔ سی ٹی ایف کے اور وی ایس جیسی INGOs کے بارے میں الزامات وہی خدشات ہیں جنہوں نے ٹرمپ کے غیر ملکی امداد کی منجمدی کی وجہ بنے، جو ان تنظیموں کے حقیقی ارادوں اور بین الاقوامی امدادی میکانزم کی افادیت پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔