پاکستان ٹوبیکو بورڈ کی تحلیل، تمباکو سے حاصل ہونے والے محصولات کے لیے خطرہ
ماہرین نے وفاقی حکومت کی جانب سے پاکستان ٹوبیکو بورڈ (پی ٹی بی) کو تحلیل کرنے کے فیصلے سے مالی سال 2024-25 اور اس کے بعد کے محصولات کے اہداف متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ ماہرین تمباکو سیکٹر کے ریگولیٹری اختیارات صوبائی حکومتوں کو منتقل کرنے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اس فیصلے پر نظرثانی کرے بصورت دیگر اس فیصلے کے سنگین معاشی، سماجی اور ریگولیٹری اثرات ہو سکتے ہیں۔
پی ٹی بی کا مرکزی ریگولیٹری ڈھانچہ تمباکو کی برآمدات میں نمایاں اضافے میں معاون رہا ہے، جو 2019-20 میں 42 ملین ڈالر سے بڑھ کر 2024 کے آخر تک 108 ملین ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ دوسری جانب قانونی تمباکو کی فروخت نے قومی خزانے میں نمایاں حصہ ڈالا، جو مالی سال 2023-24 کے دوران فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس کی مد میں 237 ارب روپے تک پہنچ گیا۔ صرف پی ٹی بی کے تحت مالی سال 2024-25 میں 600 ملین روپے تک کے ٹیکس جمع ہونے کی توقع ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومتوں کے پاس وہ بنیادی ڈھانچہ اور وسائل نہیں ہیں جو اس سطح کی کارکردگی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہیں، جس کے نتیجے میں ٹیکس ریونیو میں جو پہلے ہی کمزور معیشت کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے مزید کمی آسکتی ہے۔
پی ٹی بی نے تمباکو کی پیداوار اور صنعت کو ایک مرکزی نظام کے تحت منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، جس سے کسانوں اور قانونی تمباکو سیکٹر سمیت تمام فریقین کو فائدہ پہنچا ہے۔ ماہرین نے فیصلہ سازوں کو خبردار کیا ہے کہ اس نظام کے خاتمے سے غیر قانونی تمباکو کی کاشت اور فروخت میں اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے قانونی صنعت متاثر ہوگی اور قومی سلامتی کو لاحق میں بھی اضافہ ہوسکتاہے۔
ماہرین نے حکومت پر زور دیا کہ وہ اپنے فیصلے کو واپس لے اور قانونی صنعت کے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بغیر کوئی پالیسی تبدیلی نہ کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی بی کی تحلیل سے برسوں کی پیش رفت متاثر ہوگی، ریگولیٹری نظام عدم استحکام کا شکار ہوگا، اور کسانوں سمیت معیشت کو نقصان پہنچے گا کیونکہ پاکستان کے تمباکو سیکٹر کی پائیدار ترقی کے لیے ایک مرکزی ریگولیٹری نظام ناگزیر ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان ٹوبیکو بورڈ (پی ٹی بی) نے بھی حکومت کے اس فیصلے کی سخت مخالفت کی ہے اور اسے غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا ہے۔ پی ٹی بی کے حکام کا مؤقف ہے کہ تمباکو ہمیشہ سے ایک وفاقی معاملہ رہا ہے کیونکہ اس کا تعلق تجارت، مالیات اور صنعت سے ہے۔ پاکستان ٹوبیکو بورڈ کا موقف ہے کہ نئی قانون سازی کے بغیر اس کی ریگولیشن صوبوں کو منتقل کرنے سے تمباکو کی کاشت، پیداوار، برآمدات، ٹیکس اور قیمتوں پر تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق چین، بھارت اور زمبابوے جیسے بین الاقوامی مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ تمباکو کو دیگر بڑی معیشتوں کی طرح وفاقی سطح پر ہی ریگولیٹ کیا جانا چاہیے۔
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ حالیہ دنوں میں پاکستان ٹوبیکو بورڈ (پی ٹی بی) نے وزیر خزانہ کو ایک خط میں اپنی تحلیل کی سخت مخالفت کی ہے، جسے غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ پی ٹی بی حکام کا کہنا ہے کہ تمباکو کی معاشی اہمیت کے پیش نظر اسے ہمیشہ وفاقی سطح پر ریگولیٹ کیا گیا ہے۔ پی ٹی بی کا مؤقف ہے کہ نئی قانون سازی کے بغیر اس کی ریگولیشن صوبوں کو منتقل کرنے سے پیداوار، برآمدات اور ٹیکسیشن سے متعلق تنازعات پیدا ہو سکتے ہیں۔ ماہرین نے زور دیا کہ چین، بھارت اور زمبابوے سمیت دیگر بڑی معیشتوں کی طرح پاکستان میں بھی تمباکو کو وفاقی سطح پر ہی ریگولیٹ کیا جانا چاہیے