ڈھاکا میں پاکستانی افسر پر عملے کا بہیمانہ حملہ — دفتر میں پاکستان مخالف نعرےتعلقات بہتر ہونے کی امیدوں پر سوالیہ نشان

واقعہ سارسو (SARSO) کے دفتر میں پیش آیا، پاکستانی افسر ڈاکٹر شہزاد افضل کو زخمی کر دیا گیا — حملے کے دوران پاکستان مخالف نعرے، کیمرے بند اور پولیس کا تاخیر سے ایکشن

:سلام آباد (خصوصی رپورٹ) بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں پاکستانی اعلیٰ افسر پر ان کے اپنے عملے کی جانب سے دفتر کے اندر تشدد اور پاکستان مخالف نعروں کے واقعے نے دونوں ملکوں کے تعلقات پر نئے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ واقعہ ایسے وقت پیش آیا ہے جب شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں بہتری کی امیدیں پیدا ہو رہی تھیں۔

ذرائع کے مطابق ساؤتھ ایشین ریجنل اسٹینڈرڈز آرگنائزیشن (SARSO) کے پاکستانی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر شہزاد افضل پر 26 اکتوبر کو دفتر میں چار بنگلہ دیشی ملازمین نے حملہ کر دیا، جس میں انہیں شدید چوٹیں آئیں اور ان کی ایک پسلی ٹوٹ گئی۔

پاکستان مخالف نعرے، کیمرے بند — حملہ سوچی سمجھی سازش

ڈاکٹر شہزاد کے مطابق حملہ آوروں نے نہ صرف انہیں مارا پیٹا بلکہ دورانِ تشدد پاکستان مخالف نعرے بھی لگائے۔ انہوں نے اپنی تحریری شکایت میں الزام لگایا کہ حملے میں سینئر فنانس آفیسر شہازہان اسلام، ایم آئی ایس آفیسر محمد ربیع الاسلام اور دو دفتر معاونین ملوث تھے۔ ان کے مطابق واقعے سے پہلے دفتر کے CCTV کیمرے بند کر دیے گئے تھے اور چپراسی کو دی گئی ہدایات کے باوجود غیر متعلقہ افراد کو ان کے کمرے میں آنے دیا گیا۔ ڈاکٹر شہزاد نے اسے “ایک منظم سازش” قرار دیتے ہوئے کہا کہ “یہ حملہ صرف مجھ پر نہیں بلکہ پاکستان کی نمائندگی پر کیا گیا۔”

ابتدائی طور پر ڈھاکا پولیس ایف آئی آر درج کرنے سے گریزاں رہی، تاہم میڈیکل رپورٹ اور عینی شاہدین کے بیانات پیش کیے جانے کے بعد کیس درج کیا گیا۔ معاملہ اب سارک سیکریٹری جنرل تک پہنچ گیا ہے، جنہوں نے اعلیٰ سطحی انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔ ڈاکٹر شہزاد نے اپنی جان کو لاحق خطرات کے پیش نظر ذاتی سکیورٹی کے لیے ریٹائرڈ فوجی گارڈ اور اسلحہ لائسنس کی بھی درخواست دی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ واقعہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں بہتری کے عمل کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ واجد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان نئی شروعات کی امید کی جا رہی تھی، لیکن اس واقعے نے اس تاثر کو مشکوک بنا دیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ انفرادی عمل ہے یا بنگلہ دیش کے اندر اب بھی پاکستان مخالف عناصر متحرک ہیں جو دوطرفہ تعلقات کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔

ادارے کے اندرونی اختلافات یا بیرونی سازش؟

ذرائع کے مطابق واقعہ انتظامی نظم و ضبط نافذ کرنے پر ناراض افسران اور پاکستانی سربراہ کی مخالفت کرنے والے گروہ کے درمیان کشیدگی کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر شہزاد نے اپنی شکایت میں کہا ہے کہ ادارے میں کچھ عناصر “اختیارات کے ناجائز استعمال اور مراعات کے غلط استعمال” میں ملوث ہیں اور ان کی مخالفت کے باعث انہیں نشانہ بنایا گیا۔

سارسو (SARSO)، سارک (SAARC) کے تحت ایک علاقائی ادارہ ہے جس کا صدر دفتر ڈھاکا میں واقع ہے۔ یہ ادارہ خطے میں معیار اور تجارتی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے کام کرتا ہے۔ پاکستان کے اعلیٰ افسر پر اس نوعیت کے پہلے واقعے نے علاقائی تعاون کے اداروں میں پاکستانی نمائندوں کے تحفظ کے حوالے سے بھی سنگین سوالات کو جنم دیا ہے۔