پاکستان میں سستی جنسی دوائیاں تیار: مقامی فارما کمپنیوں کو ویاگرا بنانے کی اجازت

کراچی/اسلام آباد: برسوں تک اسمگلنگ کے ذریعے آنے والی مشہور "بلیو پِل” اب سرکاری طور پر پاکستان میں ہی تیار ہوگی۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (DRAP) نے بڑے مقامی فارما سیوٹیکل اداروں کو ویاگرا اور اس جیسے دیگر ادویات بنانے کی منظوری دے دی ہے۔

ذرائع کے مطابق پاکستان کی 15 سے زائد بڑی کمپنیوں کو ویاگرا کی 50 ملی گرام اور 100 ملی گرام کی گولیوں سمیت ٹڈالافل، واردنافیل اور دیگر ادویات تیار کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔ یہ وہ دوائیاں ہیں جو اب تک خفیہ طور پر بھارت، چین، ترکی، مصر، برطانیہ اور امریکا سے اسمگل ہو کر آ رہی تھیں۔ اندازہ ہے کہ ہر ماہ ایک ملین سے زیادہ گولیاں غیر قانونی طور پر فروخت ہو رہی تھیں جس سے اربوں روپے کا کالا دھن جنم لیتا رہا۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس اقدام سے اسمگلنگ کا خاتمہ ہوگا، ٹیکس ریونیو بڑھے گا اور لوگوں کو محفوظ اور معیاری دوا میسر آئے گی۔ لیکن ناقدین خبردار کر رہے ہیں کہ مارکیٹ میں چمک دار "پرفارمنس پِلز” کی یلغار صحت کے سنگین خطرات، نشے اور بے تحاشا استعمال کو جنم دے سکتی ہے۔

فارما انڈسٹری کے بڑے نام جیسے ہلٹن فارما، اے جی پی لمیٹڈ، ہائی نون لیبارٹریز، بائیو لیبز، شائگان فارما، میڈیزان لیبارٹریز اور دیگر کمپنیوں نے اس مارکیٹ میں قدم رکھ دیا ہے۔

ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ "اسمگلنگ سے اربوں روپے کا کالا دھن بن رہا تھا۔ مقامی پیداوار کی اجازت دے کر حکومت چاہتی ہے کہ سیلز کو ریگولیٹ کرے، ریونیو بڑھائے اور معیاری پروڈکٹس کو یقینی بنائے۔”

اندرونی ذرائع کے مطابق فارما کمپنیوں کی لابنگ کئی سالوں سے جاری تھی کیونکہ ویاگرا کی ڈیمانڈ اتنی زیادہ تھی کہ اسے روکنا ممکن نہ رہا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ ایک "تاریخی قدم” ہے لیکن خطرہ ہے کہ بڑی کمپنیاں صرف منافع کی دوڑ میں اخلاقیات کو نظر انداز کر دیں گی۔

پاکستانی مردوں کے لیے اب یہ راز کی گولی کوئی اسمگل شدہ چیز نہیں رہی—یہ اب مقامی طور پر دستیاب ہے، اور وہ بھی کھلے عام!